جمعہ 14 نومبر 2025 - 15:19
حضرت زہراء کا امامت کے حق میں احتجاج، فکری بیداری اور الٰہی بصیرت: مولانا منظور نقوی

حوزہ/مولانا سید منظور علی نقوی نے کہا کہ حضرت زہراؑ کا بولنا یا فریاد کرنا محض کوئی تاریخی یا جذباتی واقعہ نہیں، بلکہ فکری بیداری اور الٰہی بصیرت کی علامت ہے۔ بی بیؑ نے اپنے عمل سے امت کو یہ سبق دیا کہ ایمان اگر خالص ہو تو انسان کبھی باطل کے سامنے خاموش نہیں رہتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حرمِ مطہر حضرت فاطمہ معصومہؑ قم کے ابو طالب ہال میں ایامِ فاطمیہ کی مناسبت سے ایک مجلسِ عزاء منعقد ہوئی؛ مجلسِ عزاء مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی نے خطاب کیا۔

حضرت زہراء کا امامت کے حق میں احتجاج، فکری بیداری اور الٰہی بصیرت: مولانا منظور نقوی

انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا. یعنی بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عملِ صالح انجام دیتے ہیں، خداوند متعال ان کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں بسا دیتا ہے۔

مولانا منظور علی نقوی نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی پوری زندگی اللہ کی محبت، یقینِ کامل، اور روحانی عظمت کی آئینہ دار تھی۔ بی بیؑ کی سیرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حقیقی ایمان صرف عقیدہ نہیں، بلکہ دل کی روشنی اور روح کی طاقت ہے۔ ان کی زندگی میں جود و سخا، صبر، استقامت اور حق گوئی وہ صفات تھیں جو ہر مؤمن کے لیے نمونہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حضرت فاطمہؑ کا قیام محض کوئی وقتی یا ذاتی ضرورت نہیں تھا، بلکہ ایک اعلانِ ولایت تھا۔ جب دل ایمان سے روشن اور روح بقا سے معمور ہو تو کوئی طاقت حق کی آواز کو خاموش نہیں کر سکتی۔ حضرت زہراؑ کا غم، ان کی فریاد اور ان کا خطبہ سب ولایت کی صدا تھے؛ وہ صدا جس سے باطل لرز اُٹھا۔ چودہ صدیاں گزر گئیں مگر بی بیؑ کی صدائے حق آج بھی زندہ ہے اور ان کے قیام نے ہر دور میں باطل کے چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔

مولانا سید منظور علی نقوی نے ایامِ فاطمیہ اور ایامِ عاشوراء کا تقابلی مفہوم ایامِ فاطمیہ اور ایامِ عزاء کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایامِ فاطمیہ ایامِ تخلیہ ہیں، یعنی اپنے باطن کو پاک کرنے کے دن، جبکہ ایامِ عاشوراء ایامِ تزکیہ ہیں، یعنی نفس کی تربیت و طہارت کے ایام۔ ان دونوں ایام کا مقصد انسان کو یہ سمجھانا ہے کہ اگر کسی قوم میں ظرف، شعور اور بیداری نہ ہو تو وہ فساد اور گمراہی کا شکار ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حضرت زہراؑ کا بولنا یا فریاد کرنا محض کوئی تاریخی یا جذباتی واقعہ نہیں، بلکہ فکری بیداری اور الٰہی بصیرت کی علامت ہے۔ بی بیؑ نے اپنے عمل سے امت کو یہ سبق دیا کہ ایمان اگر خالص ہو تو انسان کبھی باطل کے سامنے خاموش نہیں رہتا۔

مولانا منظور علی نقوی نے مزید کہا کہ ایک انسان کے لیے سب سے زیادہ عزت و وقار کی بات یہ ہے کہ اسے امامِ معصومؑ کی معیت (ہمراہی) نصیب ہو؛ یہی حقیقی کامیابی اور مقامِ قربِ الٰہی ہے۔

انہوں نے دعا کے الفاظ نقل کرتے ہوئے کہا کہ فَأَسْأَلُ اللَّهَ الَّذِي مَنَّ عَلَيَّ بِمَعْرِفَتِكُمْ وَمَعْرِفَةِ أَوْلِيَائِكُمْ وَرَزَقَنِي الْبَرَاءَةَ مِنْ أَعْدَائِكُمْ وَأَنْ يَجْعَلَنِي مَعَكُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جس نے مجھے آپ کی معرفت اور آپ کے اولیاء کی معرفت عطا کی اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری دی، کہ وہ مجھے دنیا و آخرت میں آپ کے ساتھ رکھے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ "معرفت" صرف نام جاننے کا نام نہیں۔ تاریخ میں ایسے بے شمار لوگ ملتے ہیں جو حسین ابن علیؑ، علی مرتضیٰؑ یا فاطمہ زہراؑ کے نام سے واقف تھے، مگر ان کی حقیقی معرفت سے محروم رہے۔ اگر معرفت صرف نام جاننے سے حاصل ہو جاتی تو ظالم بھی نجات پا لیتے۔ اصل معرفت وہ ہے جہاں زبان، دل اور عمل تینوں ایک راہ پر ہوں، جہاں محبت اور عملِ صالح جمع ہوں اور انسان اپنے امامؑ کے طریق پر قائم ہو۔

مولانا منظور علی نقوی نے کہا کہ شیعہ ہونا صرف نسبت یا دعوے کا نام نہیں، بلکہ عمل سے ثابت ہونے والا رشتہ ہے۔

انہوں نے حضرت فاطمہ زہراؑ کا ارشاد نقل کیا: إِن كُنتَ تَعْمَلُ بِمَا أَمَرْنَاكَ وَتَنْتَهِي عَمَّا زَجَرْنَاكَ، فَأَنْتَ مِن شِيعَتِنَا. اگر تم وہی کرتے ہو جس کا ہم نے حکم دیا ہے، اور اس سے بچتے ہو جس سے ہم نے روکا ہے، تو تم ہمارے شیعہ ہو۔

مولانا نقوی نے کہا کہ حقیقی ایمان اور شفاعت کے حصول کے لیے مؤمن کو درج ذیل صفات اختیار کرنی چاہئیں:
1. ایمانِ خالص رکھنا
2. عمل و عقیدہ کے لحاظ سے شیعہ ہونا
3. شفاعت پر کامل اعتقاد رکھنا
4. نماز قائم کرنا
5. قرآن مجید کی تلاوت کرنا
6. خیانت سے پاک رہنا

انہوں نے مندرجہ بالا صفات کے بارے میں کہا کہ یہ وہ صفات ہیں جو انسان کو امامؑ کی معیت اور قربِ الٰہی تک پہنچاتی ہیں۔

آخر میں مولانا سید منظور علی نقوی امروہوی نے کہا کہ معرفتِ امامؑ صرف زبان سے نہیں، بلکہ دل کی روشنی اور عمل کی صداقت سے حاصل ہوتی ہے۔ جو شخص اپنے امامؑ کی راہ پر عمل کرتا ہے، وہی سچا شیعہ ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں دنیا و آخرت میں شفاعت اور معیتِ امامؑ نصیب ہوگی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha